Kahani Tasveer ki (کہانی تصویر کی)
Kahani Tasveer ki (کہانی تصویر کی)
کہانی تصویر کی
Kahani tasveer ki
ایک باد شاہ نے اپنی سلطنت میں اعلان کر وایا کہ ملک میں تصویری مقابلہ کر وایا جائے گا اور عنوان ”امن کی تصویر” ہو گا۔ جو مصور سب سے اچھی تصویر بنائے گا، اُسے قیمتی انعامات و اکرام سے نواز جائے گا۔ اس مقابلے میں ملک کے بیشتر مصوروں نے حصہ لیا اور اپنی اپنی سمجھ کے مطابق ‘امن کی تصویر ‘ بنائی۔
جب تمام تصاویر نمائش کے لیے پیش کی گئیں تو باد شاہ نے خود تمام تصویروں کو دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ تمام تصاویر میں سے بادشاہ کو صرف دو تصویریں پسند آئیں لیکن انعام کے لیے تو صرف ایک تصویر کو چننا تھا۔ پہلی تصویر ایک پُر سکون جھیل کی تھی۔ اس جھیل کو ایک آئینہ کی صورت میں پیش کیا گیا تھا۔ اس جھیل کو چاروں جانب سے ہرے بھرے پہاڑوں نے گھیر رکھا تھا۔ اوپر کھلا نیلا آسمان دکھایا گیا تھاجس میں روئی کے گالوں کی مانند بادل نظر آرہے تھے ۔ اس تصویر کو دیکھنے والا ہر شخص یہ ہی کہتا کہ یہ تصویر امن و سکون کی صحیح تشبہیہ ہو سکتی ہے ۔ یقیناً بادشا ہ اسے ہی منتخب کر یں گے اور انعام اِسی مصور کو ملے گا۔
دوسری تصویر میں بھی پہاڑ تھے مگر خشک چٹان اور کھر درے، بے رونق پہاڑ دکھائے گئے تھے ۔ ان پہاڑوں کے اوپر بہت غضب نا ک قسم کا آسمان دکھایا گیا تھا جو شدید بارش برسا رہا تھا۔ بادلوں کی گرج چمک نےاسے مزید دہشت ناک بنا دیا تھا۔ ان پہاڑوں کے ایک جانب بہت زرد و شور سے آبشار بہہ رہی تھی اور کہیں سے بھی سکو ن دکھائی نہیں دیتا تھا۔ لیکن اس شور مچاتی آبشار کے پیچھے چٹا ن میں چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں اُگی ہو ئی تھیں جہاں ایک پر ندے نے اپنا گھو نسلہ بنا رکھا تھااور اس سنگلاخ چٹانوں ، دہشت ناک آسمان اور شور مچاتی آبشار کے بیچ وہ پر ندہ نہایت آرام و سکون سے اپنے گھونسلے میں بیٹھا تھا۔
آپ کے خیال میں انعام کس تصویر کو ملنا چاہیے؟
بادشاہ نے دوسری تصویر کو انعام کے لیے چُنا۔ کیونکہ بادشا ہ کے مطا بق امن و سکو ن وہ نہیں جو حالات کے ساتھ ہو (مطلب جہاں یہ تمام پریشانی نہ ہو، مشکلات نہ ہو ں ، کوئی مسائل نہ ہو ں )بلکہ امن و سکون وہ ہے کہ جہاں یہ تمام پریشانیاں اور مشکلات ہو ں اور ان سب کے درمیان رہ کر بھی آپ کےدل میں سکون ہو۔ زندگی کٹھن ہے یہ ہمیشہ منصفانہ نہیں ہو تی ۔
زندگی ہمیشہ ویسی نہیں ہو تی جیسی ہم چاہتے ہیں کہ جس میں کوئی دکھ تکلیف نہ ہو، کام نہ ہوں، ہر وقت خوشی و اطمینان ہو، سکو ن ہو۔ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔
کسی اُستاد کا قول ہے : دُنیا ہمیں خوش کرنے کیلئے خود کو کبھی وقف نہیں کر ے گی۔
ہم تعمیری انداز اپنا کر اِن تما دردوکرب اور مصائب کا مقابلہ کر سکتے ہیں ۔ مزا تو تب ہے کہ ہم زندگی کی ان سب حقیقتوں کو قبول کر یں اور اپنی صورت حال مزید بہتر بنائیں ۔ اگر زندگی منصفانہ نہیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ یہ اچھی ، سود مند اور مسرت بخش نہیں ہو سکتی ۔ ان تمام مسائل کے ساتھ رہتے ہو ئے بھر پور زند گی گزار نا ہی صحیح زندگی ہے ۔ سکو ان وامن در حقیت اندرونی کیفیت کانام ہے ۔