خواہش کی تین کہانیاں
خواہش کی تین کہانیاں
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کوکسی ایسے بزرگ سے ملا دیا جو جس پتھر پر انگلی رکھ دیتا تھا وہ ہیرے کا بن جاتا تھا،وہ شخص اس بزرگ کے پیچھے پیچھے چل پڑا،بزرگ نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا ”ہاں بتاؤ تمہیں کیا چاہیے“ وہ بولا ”ضرورت مند ہوں اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس بھجوا دیا۔ آپ ذرا مہربانی فرمادیں“بزرگ نے سامنے موجود چٹان پر انگلی رکھی دُعا پڑھی اور وہ چٹان چند لمحوں میں ہیرے کی ہو گئی، بزرگ نے چٹان کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا ”یہ لے جاؤ اور عیش کرو“، اب یہ تمہاری ہے۔بزرگ اس کے بعد آگے چل پڑے، تھوڑی دیر بعد انہیں محسوس ہوا وہ ضرورت مند شخص دوبارہ ان کے پیچھے پیچھے چل رہا ہے۔ بزرگ پیچھے مڑے، حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پھر پوچھا ”تمہیں اب کیا چاہیے“ ضرورت مند آہستہ آواز میں بولا ”اگر تھوڑی سی مزید مہربانی ہو جاتی تو!“ اللہ کے اس بندے نے تین چار چٹانوں کو انگلی سے چھو دیا،وہ ساری ہیرے کی بن گئیں،اس بزرگ نے وہ چٹانیں بھی اس کے حوالے کر دیں اور آگے چل پڑے،وہ ابھی زیادہ دورنہیں گئے تھے کہ انہیں وہ ضرورت مند ایک بار پھر اپنی طرف آتا ہوا محسوس ہوا، بزرگ رکے، حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پھر پوچھا ”تمہیں اب کیاچاہیے؟“ وہ شخص تھوڑا سا جھجکا اور بولا”جناب کیا مجھے آپ کی یہ انگلی مل سکتی ہے؟“۔یہ چھوٹا سا واقعہ ہم انسانوں کی لامتناہی خواہشوں اور تاحد نظر پھیلے لالچ کے ناتمام سلسلے کو ظاہر کرتا ہے۔ہم انسان جب لالچ کا شکار ہوتے ہیں تو ہم ہیرے اور سونے چاندی کی چٹانیں پا کر بھی انگلی کی طرف حسرت سے دیکھتے رہتے ہیں، ہم مطمئن نہیں ہوتے، آپ اپنے دائیں بائیں دیکھیں، آپ کسی روز آئینے میں خود کو بھی دیکھ لیں،آپ کو اپنے اندر بھی ایک ایسا ہی شخص چھپا ہوا ملے گا اور آپ کو دائیں بائیں بھی یہی لوگ دکھائی دیں گے۔ہم انسان اللہ کی دل چسپ مخلوق ہیں، ہم جب لالچ کے بل میں داخل ہوتے ہیں تو ہم میں اور چیونٹیوں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ہم پوری زندگی اپنے سائز سے بڑی چٹانیں کھینچتے رہتے ہیں اور کسی روز لالچ کی کسی چٹان کے نیچے دب کر مر جاتے ہیں۔ایک ایسا خاندان جس میں والد نے بے انتہا محنت کی،کروڑوں روپے کمائے،جب اس کا انتقال ہو گیاتولواحقین میں ورثہ تقسیم ہو گیا،ایک بیٹے نے پہلے بہنوں اور والدہ کے حصے پر قبضہ کیا،وہ پھر بھائیوں کے مال پر ہاتھ مارنے لگا۔لڑائی ہوئی اور اس نے بھائی کوقتل کر دیا،پولیس کیس بنا۔قتل ثابت ہو گیا اور وہ پھانسی لگ گیا۔جائیداد کا بڑا حصہ مقدمے بازیوں میں ضائع ہوگیا،سارا خاندان رل گیا،وہ جائیداد آج بھی اللہ کی زمین پر عبرت کی نشانی بن کر پڑی ہے۔Best urdu Kahani, urdu stories, Three best stories on desire
خواہش کی تین کہانیاں
ایک ارب پتی تاجر نےپوری زندگی مال جمع کرنے میں صرف کر دی،دن دیکھا اور نہ رات،صبح فیکٹری جاتے تھے اور آدھی رات کو واپس آتے تھے، بچے کب پیدا ہوئے۔کب بڑے ہوئے اور کب کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلے؟ وہ نہیں جانتے تھے۔بچوں کی شادیاں بھی بزنس پارٹنر شپ کی طرح کیں۔آخر میں جب سونے کی چٹانیں گنتے گنتے تھک گئے تو سر اٹھا کر دیکھا۔پتا چلا یہ پوری دنیا میں اکیلے ہیں،اولاد ہے لیکن یہ سر سے پاؤں تک اجنبی ہے۔ساڑھے سات ارب کی اس دنیا میں کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں جسےکو یہ دوست کہہ سکیں۔بیوی کو بھی دور ہوئے برسوں ہو چکے ہیں اور ان کی صحت بھی ان سے مکمل طور پر خراب ہو چکی تھی۔ وہ دولت کی چٹان کو دھکیلتے دھکیلتے اتنے دور آ چکے تھے کہ اب قافلے سے ملاقات ناممکن تھی۔ کسی دوست نے مشورا دیا کہ ، آپ کے پاس اب خیرات،فلاح انسانیت اور خدمت کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا،آپ اپنی آدھی دولت اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں۔
آپ کو سکون مل جائے گا ورنہ دوسری صورت میں یہ سفر رائیگا ں ہو جائے گا، خاک چھاننے کے سوا کچھ ثابت نہیں ہو گا۔ وہ واپس گئے،فلاح وبہبود کے کام شروع کرنے کی کوشش کی لیکن بری طرح ناکام ہو گئے،کیوں؟ کیونکہ انہوں نے چالیس برس کی پروفیشنل لائف میں پیسہ کمانے کے سوا کچھ نہیں سیکھا تھا چناں چہ جب پیسہ ہاتھ سے نکلتا تھا تو ان کے دل پر ضرب پڑتی تھی۔نتیجہ یہ نکلا،انہیں ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ دفتر میں اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے انتقال کر گئے۔اولاد نے لاش سرد خانے میں رکھ دی اور جائیداد کے لیے لڑنا شروع کر دیا۔یہ لاش بعد ازاں عزیز رشتے داروں نے دفن کی،اولاد جنازے میں بھی شریک نہیں ہوئی۔وراثت کی لڑائی تین برسوں سے جاری ہے۔وہ ساری زندگی جو تنکے،جو پتے جمع کرتے رہے تھے وہ آج کل گلیوں میں اڑتے اور بکھرتے نظر آ رہے ہیں۔grate Best urdu Kahani, urdu stories best urdu kahani
خواہش کی تین کہانیاں
چند دن قبل ایک دوست تشریف لائے،وہ بہت دکھی تھے۔ میں نے وجہ پوچھی،وہ بولے میں نے ایک کمرشل پلاٹ کا سودا کیا تھا،پلاٹ کی پاور آف اٹارنی مالک کے داماد کے پاس تھی۔وہ صاحب اور ان کی بیگم جلد سے جلد ٹرانسفر پر زور دے رہے تھے۔ میں نے جیسے تیسے رقم جمع کی اور پلاٹ ٹرانسفر کرانے کے لیے ایل ڈی اے کے دفتر چلا گیا لیکن ٹرانسفر کے وقت عدالت کا آرڈر آگیا۔ پتا چلا پلاٹ کے اصل مالک پچھلی رات انتقال کر گئے ہیں۔انتقال کے بعد پاور آف اٹارنی غیر موثر ہو گئی اور جائیداد وراثت میں چلی گئی، پلاٹ کی ٹرانسفر رک گئی۔ دوست کے بقول ”میں ایل ڈی اے میں کھڑا تھا۔پلاٹ بیچنے والا خاندان ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔بیوی خاوند پر چڑھ دوڑی تھی۔اس کا کہنا تھا میں تمہیں کتنے دنوں سے کہہ رہی ہوں پلاٹ ٹرانسفر کر دو۔ ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں،یہ زیادہ دن نہیں نکال سکیں گے مگر تمہارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب تم مزے کرلو“ خاوند میری طرف دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہا تھا اور میں سوچ رہا تھا ”یہ کیسی بیٹی ہے، اس کاوالد انتقال کر گیا لیکن یہ پلاٹ کو رو رہی ہے۔میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور میں واپس آ گیا۔میں نے آج فیصلہ کیا میں اب مزید کوئی پراپرٹی نہیں خریدوں گاتاکہ کل میرے بچے بھی میری لاش رکھ کر جائیداد کے لیے ایک دوسرے سے دست وگریبان نہ ہوں“ ۔Best Best urdu Kahani, urdu stories